Thursday, 21 April 2022

اتنا ہوں اپنے آپ میں بیزار خود سے میں

 اتنا ہوں اپنے آپ میں بیزار خود سے میں

مفرور ہو چکا ہوں کئی بار خود سے میں

پکڑا گیا ہوں اپنی جڑیں کاٹتے ہوئے

لوٹا نہیں ہوں اس لیے اس بار خود سے میں

گھر میں لگی ہوئی سبھی گھڑیاں اتار کر

طے کر رہا ہوں وقت کی رفتار خود سے میں

میں خود سے اختلاف کروں آپ کے خلاف

اتنا بھی مختلف نہیں سرکار خود سے میں

قبضہ ہے میرے ہاتھ پہ نادیدہ ہاتھ کا

خود پر چلا نہیں رہا تلوار خود سے میں

پیدا ہوا ہوں جب سے مِری خود سے جنگ ہے

ڈرتا ہوں مان لوں نہ کہیں ہار خود سے میں

آ کر جھنجھوڑتی ہے ادھوری غزل مجھے

ہوتا نہیں ہوں نیند سے بیدار خود سے میں 

مچتی نہیں ہے گھر میں لڑکپن سی کھلبلی

پڑتا تو خیر اب بھی ہوں بیمار خود سے میں

چل تو رہا ہوں میں تِری رفتار سے کبیر

آگے نکل نہ جاؤں کہیں یار خود سے میں


کبیر اطہر

No comments:

Post a Comment