اتنا ہوں اپنے آپ میں بیزار خود سے میں
مفرور ہو چکا ہوں کئی بار خود سے میں
پکڑا گیا ہوں اپنی جڑیں کاٹتے ہوئے
لوٹا نہیں ہوں اس لیے اس بار خود سے میں
گھر میں لگی ہوئی سبھی گھڑیاں اتار کر
طے کر رہا ہوں وقت کی رفتار خود سے میں
میں خود سے اختلاف کروں آپ کے خلاف
اتنا بھی مختلف نہیں سرکار خود سے میں
قبضہ ہے میرے ہاتھ پہ نادیدہ ہاتھ کا
خود پر چلا نہیں رہا تلوار خود سے میں
پیدا ہوا ہوں جب سے مِری خود سے جنگ ہے
ڈرتا ہوں مان لوں نہ کہیں ہار خود سے میں
آ کر جھنجھوڑتی ہے ادھوری غزل مجھے
ہوتا نہیں ہوں نیند سے بیدار خود سے میں
مچتی نہیں ہے گھر میں لڑکپن سی کھلبلی
پڑتا تو خیر اب بھی ہوں بیمار خود سے میں
چل تو رہا ہوں میں تِری رفتار سے کبیر
آگے نکل نہ جاؤں کہیں یار خود سے میں
کبیر اطہر
No comments:
Post a Comment