Thursday, 21 April 2022

موج غم اس لیے شاید نہیں گزری سر سے

 موج غم اس لیے شاید نہیں گزری سر سے

میں جو ڈوبا تو نہ ابھروں گا کبھی ساگر سے

اور دنیا سے بھلائی کا صلہ کیا ملتا

آئینہ میں نے دکھایا تھا کہ پتھر برسے

کتنی گم سم مِرے آنگن سے صبا گزری ہے

اک شرر بھی نہ اڑا روح کی خاکستر سے

پیار کی جو سے گھر گھر ہے چراغاں ورنہ

اک بھی شمع نہ روشن ہو ہوا کے ڈر سے

اڑتے بادل کے تعاقب میں پھرو گے کب تک

درد کی دھوپ میں نکلا نہیں کرتے گھر سے

کتنی رعنائیاں آباد ہیں میرے دل میں

اک خرابہ نظر آتا ہے مگر باہر سے

وادئ خواب میں اس گل کا گزر کیوں نہ ہوا

رات بھر آتی رہی جس کی مہک بستر سے

طعنِ اغیار سنیں آپ خموشی سے شکیب

خود پلٹ جاتی ہے ٹکرا کے صدا پتھر سے


شکیب جلالی

No comments:

Post a Comment