مست ولائے عشق سے اُترا حجابِ تشنگی
چشمۂ درد کو کہا؛ ہم نے شرابِ تشنگی
حشرِ خدا کی بات کو کرتے ہیں کس لیے یہاں
دنیا میں ہم کو دیجئے، اپنا حسابِ تشنگی
ہم بھی نہ چھوڑیں ہاتھ سے جامِ ولائے حیدریؑ
تم کو بھی آج ہو عطا اصلِ ثوابِ تشنگی
شوقِ جنون کے سوا مجنوں کو راستہ نہیں
بولیں گے ہم بھی الاماں، نکلا جو آبِ تشنگی
چھلکی جو جام شیخ جی بولے ہیں آ کے جوش میں
ہم کو نہ چاہیۓ ابھی لطفِ شبابِ تشنگی
تشنہ لبی میں ساقیا، ہم کو نہ جام دیجیۓ
جوگی ہی جھیلتا رہے قہرِ عذاب تشنگی
حفیظ جوگی
No comments:
Post a Comment