جگر کو خون کئے دل کو بے قرار ابھی
بھٹک رہے ہیں تِرے عشق میں ہزار ابھی
اسی لیے تو یہ دنیا دُھلی دُھلی سی لگے
تِرے فراق میں روئے ہیں زار زار ابھی
ادائے خار سے گلشن کی بڑھ گئی زینت
اگرچہ پھولوں کے دامن ہیں تار تار ابھی
سیاہ بخت فضاؤں میں دل ہوا بد ظن
تِری زبان کے تیور ہیں آبدار ابھی
ابھی نہ نکلے گا حاصل ہماری باتوں کا
تمہارے سر پہ ہے سایہ کوئی سوار ابھی
یہ دیکھتے ہیں کہ کل رنگ صبح کیا ہو گا
کہ آفتاب کا عالم! ہے انتظار ابھی
افروز عالم
No comments:
Post a Comment