Thursday, 21 April 2022

گئے منظروں سے یہ کیا اڑا ہے نگاہ میں

 گئے منظروں سے یہ کیا اڑا ہے نگاہ میں

کوئی عکس ہے کہ غبار سا ہے نگاہ میں

ہمہ وقت اپنی شبیہ کے ہوں میں روبرو

کوئی اشک ہے کہ یہ آئینہ ہے نگاہ میں

کوئی شہر خواب گزر رہا ہے خیال سے

کوئی دشت شام سلگ رہا ہے نگاہ میں

کف درد سے غم کائنات کی گرد سے

وہی مٹ رہا ہے جو نقش سا ہے نگاہ میں

کوئی تیرگی ہے فراتِ جاں میں رواں دواں

مگر اک چراغ سا تیرتا ہے نگاہ میں

گئے موسموں کی وہ سبز رنگ حکایتیں

کوئی آبِ سرخ سے لکھ گیا ہے نگاہ میں


آفتاب حسین

No comments:

Post a Comment