درد دل میں ہی نہ رکھا کہ جو درماں ہوتا
دوست ہوتا یا گھڑی بھر کا ہی مہماں ہوتا
تھا وہ درویش، اسے کام نہ تھا دنیا سے
زندگی تیری عطا پر جو پشیماں ہوتا
کیفیت دل کی اسے کیا میں بتاتی ہمدم
ایک لمحے کو جو احساس کا پیماں ہوتا
خوش نصیبی تھی کہ یہ شومئ قسمت اپنی
شوق منزل کا نہ تھا گر تو بیاباں ہوتا
لمحہ لمحہ نظر اٹھتی ہے الجھ جاتی ہے
ایک جذبات کا قلزم تھا جو پنہاں ہوتا
کرچیاں دور تلک پھیل گئیں خوابوں کی
اے شبِ ہجر! تِرے بام پہ درباں ہوتا
ایک تصویر مسلسل ہی نظر آتی ہے
عکس آنکھوں میں سمانا بھی تو آساں ہوتا
اک سکوں ہے جو گراں بار ہوا جاتا ہے
وقت ایسا بھی تو گزرے کہ جو ارزاں ہوتا
عشق کی دل میں لگی آگ سے کیا گھبرائیں
کود جانا جو اگر ذات کا عرفاں ہوتا
شائستہ مفتی
No comments:
Post a Comment