اجنبی لوگوں کو جس طرح سے پایا اپنا
کب بھلا بنتا ہے یوں کوئی پرایا اپنا
فاصلہ بڑھتا چلا جاتا ہے جیسے جیسے
"ٹوٹتا جاتا ہے آواز سے رشتہ اپنا"
ہاں میرے دوست یہاں کچھ بھی نہیں ہے سانجھا
دکھ بھی اپنے ہیں یہاں درد بھی اپنا اپنا
ہم نے جب دیکھا کہ مفلس ہیں خریدار اپنے
جانتے بوجھتے خود بھاؤ گرایا اپنا
حق نہ جو مانگیں وہ مظلوم نہیں ظالم ہیں
کٹ مرے شوق سے پر سر نہ اٹھایا اپنا
اپنے جیسے ہی ہیں دکھ درد کے مارے طاہر
ہم نے احباب سے بھی حال چھپایا اپنا
طاہر مسعود
No comments:
Post a Comment