ملنا ہے جس کو آ کے ملے جُوئبار پر
طوفانِ رُستہ خیز ہے ریگِ کنار پر
سر میرا کٹ بھی جائے تو جھُکنے نہ پائے گا
کوئی بھی حرف آنے نہ دوں گا وقار پر
زیرِ نگیں ہے رونقِ دنیائے شش جہت
اہلِ فلک کو رشک ہے مشتِ غبار پر
کیا کیا فریب وعدۂ فردا پہ کھائے ہیں
کیسے یقین کرتے شبِ انتظار پر
اب در بدر کی ٹھوکریں کھاتا ہے چار سُو
جس شخص کو غرور تھا اپنے حصار پر
مجھ کو شرابِ عشقِ حقیقی کا ہے خمار
مفتی ہے طعنہ زن مِرے کیفِ خمار پر
انکار تو نہیں ہے کہ گُل ہیں چمن کی شان
کانٹوں کا بھی تو حق ہے نگارِ بہار پر
سازِ شگفتِ گُل ہے گلستاں میں نغمہ سنج
صد سوزِ دل کی مُہر ہے صوتِ ہزار پر
ایسی کشش ہے جعفری میرے کلام میں
گلرو ہمیشہ آئیں گے میرے مزار پر
مقصود جعفری
No comments:
Post a Comment