Saturday, 2 April 2022

بزور جور و جفا ازدواج بنتے ہیں

 بزور جور و جفا ازدواج بنتے ہیں 

نتیجتاً یہاں وحشی سماج بنتے ہیں 

امیر بوڑھے سے بیٹی کو بیاہنے والا 

بتا رہا تھا فلک پر ازدوج بنتے ہیں

ہمارا قحط مقدر کہ ہم نے کاٹے ہیں 

انہی کے ہاتھ جو وجہ اناج بنتے ہیں 

ہمیں تو گھٹی میں نفرت پلائی جاتی ہے 

تبھی تو ایسے ہمارے مزاج بنتے ہیں

ہمارا ملک وہ حیرت کا کارخانہ ہے 

کہ جس میں صبح و شام احتجاج بنتے ہیں

ہمیں وہ کل کے دفینے نہیں دکھائے گئے 

جن کی کوکھ سے قوموں کے آج بنتے ہیں 

طلاق دیتی زبانوں کو کیا پتا عرفی 

کہ بیٹیوں کے لیے کیسے داج بنتے ہیں 


عرفان عرفی

No comments:

Post a Comment