نہ کچھ زیادہ نہ کچھ کم تِرے حوالے سے
وہی ہے درد کا عالم ترے حوالے سے
کھلے جو زخم کے ٹانکے تو یہ ہوا محسوس
صبا نے رکھ دیا مرہم ترے حوالے سے
وہی ہے دل کا تڑپنا وہی ہے کیفیت
وہی مزاج ہے پیہم ترے حوالے سے
چلی ہے ہجر کے موسم میں جب بھی پروائی
ہوئی ہے آنکھ مِری نم ترے حوالے سے
خزاں کا ذکر تو میری زباں پہ تھا ہی نہیں
بہار کرتی ہے ماتم ترے حوالے سے
مِری حیات تھی خوشیوں سے ہمکنار مگر
ہوئے ہیں درد منظم ترے حوالے سے
تِرا حوالہ دیا تھا کہ یک بیک ماجد
زمانہ ہو گیا برہم ترے حوالے سے
ماجد دیوبندی
No comments:
Post a Comment