شہریاروں نے دکھائیں مجھ کو تصویریں بہت
تیری بستی تک ملیں رستے میں جاگیریں بہت
نذر آتش کر رہے ہو آج پر کل دیکھنا
ان صحیفوں کی لکھی جائیں گی تفسیریں بہت
آج بھی میرے لیے مشکوک ہے تیرا لگاؤ
پتھروں پہ نقش دیکھیں میں نے تحریریں بہت
سات رنگوں میں بٹی ہو جیسے سورج کی کرن
خواب دیکھا ایک دیکھیں، اس کی تعبیریں بہت
اب بچھڑ کر پھر رہی ہے بَن کی دیوی بد حواس
مجھ سے وحشی کے لیے ترسی تھیں زنجیریں بہت
ان کو فرصت ہی نہ مل پائی کہ سُلجھائیں یہ جال
ختم ہو کر رہ گئیں ہاتھوں میں تقدیریں بہت
وہ کسی پہلو مجھے قاتل نہ لگتا تھا سلیم
یوں تو تھیں آرائش دیوار شمشیریں بہت
سلیم شہزاد
No comments:
Post a Comment