کشتئ مے کو تصور میں رواں رکھتے ہیں
جیب خالی ہے مگر دل تو جواں رکھتے ہیں
ہم کہ محروم ہیں دیدارِ خداوندی سے
چشم ظاہر تو بہ ہر سو نگراں رکھتے ہیں
خانقاہوں سے تعلق ہے نہ درباروں سے
نسبتِ سلسلۂ زلفِ بتاں رکھتے ہیں
جھک ہی جاتا ہے فلک آنکھ جہاں پڑتی ہے
چوم لیتی ہے زمیں پاؤں جہاں رکھتے ہیں
ہم سے آباد ہے مے خانۂ ہستی، یعنی
دل کو رکھتے ہیں سبک سر کو گراں رکھتے ہیں
خورشید الاسلام
No comments:
Post a Comment