Saturday, 2 April 2022

کشتئ مے کو تصور میں رواں رکھتے ہیں

 کشتئ مے کو تصور میں رواں رکھتے ہیں

جیب خالی ہے مگر دل تو جواں رکھتے ہیں

ہم کہ محروم ہیں دیدارِ خداوندی سے

چشم ظاہر تو بہ ہر سو نگراں رکھتے ہیں

خانقاہوں سے تعلق ہے نہ درباروں سے

نسبتِ سلسلۂ زلفِ بتاں رکھتے ہیں

جھک ہی جاتا ہے فلک آنکھ جہاں پڑتی ہے

چوم لیتی ہے زمیں پاؤں جہاں رکھتے ہیں

ہم سے آباد ہے مے خانۂ ہستی، یعنی

دل کو رکھتے ہیں سبک سر کو گراں رکھتے ہیں


خورشید الاسلام

No comments:

Post a Comment