Friday, 1 April 2022

کیمیا گر نے مجھے جِھڑکا کہا گھر جاؤ

 کیمیا گر نے مجھے جِھڑکا، کہا؛ گھر جاؤ

کچا لوہا کہاں بنتا ہے طلا؟، گھر جاؤ

میری تاریکی میں کیوں پھرتے ہو یوں آوارہ 

دھوپ پہنا کے مجھے شب نے کہا؛ گھر جاؤ

قطرہ قطرہ مِری آنکھوں سے نچڑتا گیا درد 

اور ہر قطرہ مجھے کہتا رہا؛ گھر جاؤ

گونگے صحرا میں بھٹکتے ہوئے اسواروں کو 

چار اطراف سے آتی ہے صدا؛ گھر جاؤ

میں نے میخانے میں غالب سے کہا؛ ڈرتے ہوئے

نشے سے غم نہیں مٹتا ہے، چچا! گھر جاؤ

روشنی، روشنی، چِلانے سے کب لوٹے گا

چاند دریا میں کہیں ڈوب گیا؛ گھر جاؤ

شعر بے روح ہیں، شاعر ہیں سبھی درماندہ 

بزم برخاست ہوئی، بارے خدا؛ گھر جاؤ

دیکھو, آنند! یہ پھاٹک نہیں کھُلنے والا

لوٹ آئے گی تمہاری یہ دعا؛ گھر جاؤ


ستیہ پال آنند

No comments:

Post a Comment