وہ مرا عازم سفر ہونا
اور کسی آنکھ کا نہ تر ہونا
رات پھر جاگنا نہیں پـڑتا
کیا سہولت ہے بے خبر ہونا
صرف بے کل ہوا سمجھتی ہے
کیسا ہوتا ہے دربدر ہونا
میرے دشمن کا دیکھ کر مجھ کو
زرد ہونا اور اس قدر ہونا
اس کے دیکھے سے جگمگا اٹھنا
اس کے چھونے سے معتبر ہونا
پھر نہ کہنا خبر نہیں تھی ہمیں
میرا ہونا ہے مختصر ہونا
گویا کچے گھڑے پہ تیرنا ہے
ڈوب جانے کا دل میں ڈر ہونا
خارزاروں کو فرشِ گل کر دے
تیری یادوں کا ہمسفر ہونا
خواب ہے وہ بھی کچی نیند کا خواب
خاک زادے کا تاجور ہونا
ہاتھ آیا نہیں گیا لمحہ
دور ہونا تو سوچ کر ہونا
کھال اُدھڑتی ہے، سنگ پڑتے ہیں
امتحان، راہ کا شجر ہونا
اک اذیت سے کم نہیں اظہر
ان دنوں صاحبِ نظر ہونا
اظہر ادیب
No comments:
Post a Comment