Friday, 1 April 2022

وہ مرا عازم سفر ہونا اور کسی آنکھ کا نہ تر ہونا

 وہ مرا عازم سفر ہونا

اور کسی آنکھ کا نہ تر ہونا

رات پھر جاگنا نہیں پـڑتا

کیا سہولت ہے بے خبر ہونا

صرف بے کل ہوا سمجھتی ہے

کیسا ہوتا ہے دربدر ہونا

میرے دشمن کا دیکھ کر مجھ کو

زرد ہونا اور اس قدر ہونا

اس کے دیکھے سے جگمگا اٹھنا

اس کے چھونے سے معتبر ہونا

پھر نہ کہنا خبر نہیں تھی ہمیں 

میرا ہونا ہے مختصر ہونا 

گویا کچے گھڑے پہ تیرنا ہے

ڈوب جانے کا دل میں ڈر ہونا

خارزاروں کو فرشِ گل کر دے 

تیری یادوں کا ہمسفر ہونا

خواب ہے وہ بھی کچی نیند کا خواب 

خاک زادے کا تاجور ہونا 

ہاتھ آیا نہیں گیا لمحہ 

دور ہونا تو سوچ کر ہونا

کھال اُدھڑتی ہے، سنگ پڑتے ہیں

امتحان، راہ کا شجر ہونا

اک اذیت سے کم نہیں اظہر

ان دنوں صاحبِ نظر ہونا


اظہر ادیب

No comments:

Post a Comment