Friday, 1 April 2022

رکا جواب کی خاطر نہ کچھ سوال کیا

 رکا جواب کی خاطر نہ کچھ سوال کیا

مگر یہ زعم کہ ہر رابطہ بحال کیا

تھکن نہیں ہے کٹھن راستوں پہ چلنے کی

بچھڑنے والوں کے دکھ نے بہت نڈھال کیا

جو ٹوٹنا تھا فقط درد ہی کا رشتہ تھا

تو دل نے کیوں بھلا اس بات پر ملال کیا

بچا کے رکھنا تھا اک عکس اپنی آنکھوں میں 

بڑے جتن سے انہیں آئینہ مثال کیا

لہو میں تیر گئی وہ گھڑی جدائی کی

کہ جس کے زہر نے جینا مِرا محال کیا

بچھڑ رہا تھا مگر مڑ کے دیکھتا بھی رہا

میں مسکراتی رہی میں نے بھی کمال کیا

خبر تھی اس کو کہ دشتِ ہنر سے آئی ہوں

سو اس کے لفظوں نے زخموں کا اندمال کیا


فاطمہ حسن

No comments:

Post a Comment