Wednesday, 22 February 2023

ایسے حیراں ہیں کہ حیرت کی کوئی حد ہی نہیں

 ایسے حیراں ہیں کہ حیرت کی کوئی حد ہی نہیں

عکس ٹوٹا ہے مگر آئینے پہ زد ہی نہیں

ہم تِرے ظرف کی قامت سے بہت چھوٹے ہیں

تیرے رتبے کے برابر تو یہاں قد ہی نہیں

اب یہی آخری حل ہے کہ مدینے پہنچوں

اک وہی در ہے کہ جس در پہ کوئی رد ہی نہیں

ہر بڑھاپے کو بزرگی بھی نہیں مل سکتی

تنگ گلیوں کے نصیبوں میں یہ برگد ہی نہیں

اپنے لہجے کے تلفظ سے یہ تشدید ہٹا

دیکھ الفاظ کے چہروں پہ کہیں شد ہی نہیں


بابر علی اسد

No comments:

Post a Comment