ایسے حیراں ہیں کہ حیرت کی کوئی حد ہی نہیں
عکس ٹوٹا ہے مگر آئینے پہ زد ہی نہیں
ہم تِرے ظرف کی قامت سے بہت چھوٹے ہیں
تیرے رتبے کے برابر تو یہاں قد ہی نہیں
اب یہی آخری حل ہے کہ مدینے پہنچوں
اک وہی در ہے کہ جس در پہ کوئی رد ہی نہیں
ہر بڑھاپے کو بزرگی بھی نہیں مل سکتی
تنگ گلیوں کے نصیبوں میں یہ برگد ہی نہیں
اپنے لہجے کے تلفظ سے یہ تشدید ہٹا
دیکھ الفاظ کے چہروں پہ کہیں شد ہی نہیں
بابر علی اسد
No comments:
Post a Comment