سوئے ہوئے جھنجھوڑ کے ہم لوگ سو گئے
لوگوں کے خواب توڑ کے ہم لوگ سو گئے
ہم کو گماں تھا جاگ کے روئیں گے رات بھر
تیری گلی کو چھوڑ کے ہم لوگ سو گئے
یخ بستہ رات اور یہ غربت کی اوڑھنی
اپنا بدن سکوڑ کے ہم لوگ سو گئے
تیرا خیال اک طرف، دنیا تھی اک طرف
دنیا سے منہ موڑ کے ہم لوگ سو گئے
تیرا خیال چوم کے چہکے لبِ خیال
پھر خام خیالی چھوڑ کے ہم لوگ سو گئے
تیرا خیال گھنٹیوں کے شور کا سبب
سو بت کدے کو توڑ کے ہم لوگ سو گئے
تیرا خیال شب کے سفر میں تھا ایک بوجھ
رختِ سفر کو چھوڑ کے ہم لوگ سو گئے
تیرا خیال دھوپ تھا آنکھیں پکا گیا
آنکھوں کا رس نچوڑ کے ہم لوگ سو گئے
تیرا خیال راحتِ شب کی تھی ایک اینٹ
ایک ایک اینٹ جوڑ کے ہم لوگ سو گئے
تیرا خیال تان کے چھانی ہوس کی دھوپ
تیرا خیال اوڑھ کے ہم لوگ سو گئے
محسن احمد
No comments:
Post a Comment