کبھی سر سے کبھی دستار سے بُو آتی ہے
لڑنے والے تِرے کردار سے بو آتی ہے
سب مریضوں سے محبت ہے مسیحاؤں کو
ایک تم ہو جسے بیمار سے بو آتی ہے
کسی لڑکی کے تڑپنے کے نشاں واضح ہیں
خوں بہا ہے، یہاں دیوار سے بو آتی ہے
اپنی چاہت کو بیاں اور کسی رنگ سے کر
لفظ پیارا ہے، مگر پیار سے بو آتی ہے
کچھ تو پنہاں ہے دہر دل میں برائی اس کے
جانے کیا بات ہے سرکار سے بو آتی ہے
دہر کاظمی
No comments:
Post a Comment