سمندر
آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے نہ دیکھو مجھ کو
تیرہ و تار سمندر جس میں
قرب کے دشت، جدائی کے جبل
وہ جو ساحل پہ کبھی میں نے جلایا تھا چراغ
دور، نادیدہ کناروں کی طرف آپ سے آپ
دم بخود، سحرزدہ کھنچتا چلا جاتا ہے
تیرہ و تار سمندر ہیں یہ آنسو، جن میں
کسی غرقاب، پراسرار جزیرے سے
جہاں میں بھی نہیں، تم بھی نہیں
التجا اور ندامت سے گلوگیر تمہاری فریاد
سطح سربستہ تک آتی ہے تمہاری آواز
شہاب جعفری
No comments:
Post a Comment