اتارتا ہوں، گھر آ کر، میں جب سفر کی تھکن
تو بام و در سے اترتی ہے مجھ پہ گھر کی تھکن
ہمیں، ہماری تھکن دیجیۓ، خدا کے لیے
تھکے ہوئے ہیں اٹھا کر، اِدھر اُدھر کی تھکن
یہ غیر ارادی مشقّت معاف کی جائے
یہ سانس کھینچتے رہنا، یہ عمر بھر کی تھکن
نہ انتظار ہی بھگتا کبھی نہ ہجر کوئی
بلاجواز ہے تم میں سے بیشتر کی تھکن
ثمر اتار دئیے اور برگ جھاڑ دئیے
ہوا کا شکریہ، کم کر گئی شجر کی تھکن
کسی نے تھپکا نہیں دستکوں کی صورت اِسے
سمجھ نہ آئے گی تم کو ہمارے در کی تھکن
تھکن کے ڈر میں کٹے جا رہی ہے عمر، افسوس
اور اتنا ڈر کہ ہے طاری بدن پہ ڈر کی تھکن
کسی کو دیکھ رہا ہوں مسلسل اور، عمیر
اتر رہی ہے مسلسل مِری نظر کی تھکن
عمیر نجمی
No comments:
Post a Comment