لہو فشاں ہیں ورق اور دل تپیدہ ہیں
ادیب شہر کے اب بھی قلم بریدہ ہیں
نہ اذن آہ و فغاں ہے کہ نوحۂ ہستی
کسے سنائیں جو الفاظ خوں چکیدہ ہیں
کبھی زبانیں نکل آئیں خارزاروں کی
شجر چمن کے خموشی سے سر خمیدہ ہیں
نہیں معاف میرے گھر میں جرم حق گوئی
سنبھل کے دیکھ شہر میں جو سر کشیدہ ہیں
بس اتنا سوچ کے خود کو سنبھال لیتے ہیں
جہاں میں ہم سے بھی بڑھ کر ستم رسیدہ ہیں
تمہارے ملنے سے پہلے نہ تھا کوئی مذہب
بچھڑ کے تم سے مگر آج با عقیدہ ہیں
ہمارے واسطے دامان دوستاں تنگ ہے
ہمیں سلام کرو ہم وفا گزیدہ ہیں
ابھی تو غم کے شجر پہ کھلی ہیں کچھ کلیاں
ابھی تو پلکوں پہ کچھ تارے نو دمیدہ ہیں
یہ کیسا دور ہے زیبا کہ اشک تک چپ ہیں
سجا لبوں پہ تبسم ہے دل کبیدہ ہیں
مسرت جبین زیبا
No comments:
Post a Comment