تشنہ لبوں کے خالی کوزے اشکوں سے بھر جاتے ہیں
پیاس کی شدت بڑھ جاتی ہے اور پیاسے مر جاتے ہیں
وقت مقام کی پیشانی پر ایسی خراشیں کھینچتا ہے
شہر سے جانے والے شہر میں لوٹیں تو ڈر جاتے ہیں
ان آنکھوں کا اک بوسہ لفظوں کو خوشبو دیتا ہے
ان ہونٹوں کے رنگ بکھر کر منظر منظر جاتے ہیں
شام سمے روحیں جسموں کی شاخ پہ آ سستاتی ہیں
چلتے پھرتے لاشے صبح سویرے دفتر جاتے ہیں
شہرِ جنوں کی ایک جھلک ہے نورِ نظر کی قیمت میں
جن کے دو دو بیٹے ہیں وہ لوگ مُکرر جاتے ہیں
سرحد پار کی اک بستی میں کوئی ہمارا رہتا تھا
اس کی خیر خبر سننے کو ہم دریا پر جاتے ہیں
ان کی یاد میں رونا ہے یا ہنسنا ہے معلوم نہیں
کیسے ظالم لوگ ہیں جو ہنستے ہنستے مر جاتے ہیں
عدنان محسن
No comments:
Post a Comment