خدا بھی جانتا ہے خوب جو مکار بیٹھے ہیں
حرم میں سرنگوں کچھ قابل فی النار بیٹھے ہیں
گھروں میں ساتھ بیٹھے ہیں سر بازار بیٹھے ہیں
نقاب اپنوں کا اوڑھے آج کل اغیار بیٹھے ہیں
محبت کی نظر میں جیت لی ہے ہم نے وہ بازی
زمانے کی نظر میں ہم کہ جس کو ہار بیٹھے ہیں
خطا ہو جائے ہم سے جو کوئی تو درگزر کرنا
تمہاری بزم میں ہم آج پہلی بار بیٹھے ہیں
زمیں سے یا فلک سے یا کہ اپنوں سے کہ غیروں سے
بتائیں کس طرح کس کس سے ہم بیزار بیٹھے ہیں
یہی جمہوریت کا نقص ہے جو تخت شاہی پر
کبھی مکار بیٹھے ہیں، اب کہاں جم غفیر اعظم
یہاں دو چار بیٹھے ہیں وہاں دو چار بیٹھے ہیں
ڈاکٹر اعظم خان
No comments:
Post a Comment