میرا آئینہ مِری شکل دکھاتا ہے مجھے
یہ وہ اپنا ہے جو بیگانہ بتاتا ہے مجھے
میرے احساس دوئی کو یہ ہوا دیتا ہے
میری ہستی کا یہ احساس کراتا ہے مجھے
کرب احساس کراتا ہے خودی کے درشن
زعم ہستی کے جھروکے میں سجاتا ہے مجھے
قدر و قیمت کو بڑھانے کا بڑھاوا دے کر
بہرِ نیلام کہاں دل لیے جاتا ہے مجھے
سادگی میری اسے دیتی ہے اذنِ گُفتار
مجھ کو آتی ہے ہنسی جب وہ بناتا ہے مجھے
بُھول جاتا ہوں سبھی جور و جفا کے قصے
جب کوئی گیت محبت کے سناتا ہے مجھے
کون سنتا ہے مِرے دُکھ کی کہانی طالب
جس سے کہتا ہوں وہ اپنی ہی سناتا ہے مجھے
طالب چکوالی
منوہر لال کپور
No comments:
Post a Comment