شام کو ہاتھوں میں لے کر رات میں تبدیل کر
اشک منظر میں بہا، برسات میں تبدیل کر
پوچھ مجھ سے میں نے کتنے دل دُکھا رکھے ہوئے
ہمسفر اب خامشی کو بات میں تبدیل کر
میرے چہرے کو پکڑ کر، چھوٹے بچوں کی طرح
یار! میری ہر نفی اثبات میں تبدیل کر
آج مجھ کو دیکھ جا، بس اک نظر ہی دیکھ جا
اور صحرا کو ہرے باغات میں تبدیل کر
منجمد اشکوں سے دھرتی کو نمو دے، آسماں
اور پانی کی کمی بہتات میں تبدیل کر
اے تخیل، تیری پیدائش پہ بولا تھا خدا
ہر اذیت کو حسیں لمحات میں تبدیل کر
علی اسد
No comments:
Post a Comment