جدید طالب علم
یہ بوجھ کئی کتابوں کا پشت پہ اٹھاتے ہیں
یہ صرف اپنے پرچے پہ حاشیے لگاتے ہیں
یہ دوسروں کے پیپر پہ کیمرے لگاتے ہیں
یا پھر سوالنامے کو دیکھتے ہی جاتے ہیں
ہم ایسے طالب علموں کی داستاں سناتے ہیں
یہ کل سے پڑھ کے آنے کا عہد کر کے جاتے ہیں
یہ ناشتہ بھی بستر میں بیٹھ کے اڑاتے ہیں
ان دُھلے سے چہرے ہیں بال کب سجاتے ہیں
گزشتہ دن سے بند پڑے یہ بیگ بھی اٹھاتے ہیں
روز پڑھنے آنے کی رسم بھی نبھاتے ہیں
شرارتوں، حماقتوں میں وقت کو گنواتے ہیں
یہ کل سے پڑھ کے آنے کا عہد کر کے جاتے ہیں
جو ٹیسٹ کوئی مشکل ہو، بخار یہ مناتے ہیں
شہر بھر کی گلیوں میں آنکھ یہ لڑاتے ہیں
اگلے دن یہ کالج میں جو رسمی طور آتے ہیں
بے دھیان آنکھوں کو یہ بورڈ پر جماتے ہیں
سوال کے جواب میں یہ نہ میں سر ہلاتے ہیں
یہ کل سے پڑھ کے آنے کا عہد کر کے جاتے ہیں
خوش گمان ہونے کا ثبوت یوں دلاتے ہیں
کہ مہنگے کالجوں میں ہی اے گریڈ آتے ہیں
یہ سوچ کر کتابوں کو بھی ہاتھ کب لگاتے ہیں
چاہے سب اساتذہ جتنا سر کھپاتے ہیں
ان جدید طلبا کو بول یہ ہی آتے ہیں
یہ کل سے پڑھ کے آنے کا عہد کر کے جاتے ہیں
ان کا ہر ادارے میں چلن بھی معصومانہ ہے
تین بار گھنٹے میں پانی پینے جانا ہے
یوں کہو کہ لیکچر کو کسی طرح چُکانا ہے
باپ کی کمائی کا فائدہ اٹھانا ہے
زندگی کا ایک دن روز یوں گنواتے ہیں
یہ کل سے پڑھ کے آنے کا عہد کر کے جاتے ہیں
کرگسوں نے پہنا ہے لباس اب شاہین کا
نہ شوقِ علمِ دنیا ہے، نہ کچھ پتہ ہے دین کا
ہر کریم، ہر فیشل ہے شرف اس حسین کا
اس کو کھائے جاتا ہے، خیال مہ جبین کا
یہ دلربا کے ہاتھوں سے کئی پُلاو کھاتے ہیں
یہ کل سے پڑھ کے آنے کا عہد کر کے جاتے ہیں
زیورات ماؤں کے بھی ہو گئے دھواں دھواں
تمہاری فیس کے لیے وہ مانگتے کہاں کہاں
گھر میں چولہا جلنے کا نہ ہو سکا تمہیں گُماں
پھر بھی تیرے ماتھے کو چُومتی ہے روز ماں
وہ بیٹیاں بیاہنے میں دیر کرتے جاتے ہیں
یہ کل سے پڑھ کے آنے کا عہد کر کے جاتے ہیں
ہماری شکوہ گوئی کا اتنا سا خلاصہ ہے
تمہارے والدین کو تمہارا ہی دلاسہ ہے
علم ہی زمانے کا لازوال اثاثہ ہے
علم کے بغیر تُو، تولہ ہے نہ ماسہ ہے
روز طِفلِ مکتب کو یہی سبق پڑھاتے ہیں
وہ کل سے پڑھ کے آنے کا عہد کر کے جاتے ہیں
عصمت اللہ ساحل
No comments:
Post a Comment