Thursday 23 February 2023

ہم اپنے گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں

 بس بدلۂ تقصیرِ وفا کاٹ رہے ہیں

ہم اپنے گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں

یہ جبر نہیں ہے تو بتائیں ہمیں کیا ہے

اک عمر ہے جو اس کے سوا کاٹ رہے ہیں

دنیا تو ہے اک جیل، وہی جیل کہ جس میں

ہم قیدِ مشقت کی سزا کاٹ رہے ہیں

جاتی ہیں مگر پھر بھی دعائیں مِری رب تک

 کچھ  لوگ سمجھتے ہیں صدا کاٹ رہے ہیں

فرصت ہی نہیں ملتی ہمیں سیف غموں سے

اک کربِ مسلسل بخدا کاٹ رہے ہیں


سیف الرحمٰن

No comments:

Post a Comment