نیند کا خوف مِرے خواب کو لے ڈُوبے گا
یہ وہ دریا ہے جو تالاب کو لے ڈوبے گا
وہ حسیں شخص اگر سامنے آ جائے تو
اس کا چہرہ مِرے اعصاب کو لے ڈوبے گا
جسم کے زخم سے گھبرایا تو دل سورج کا
اک چمکتے ہوئے مہتاب کو لے ڈوبے گا
شہر خود مست میں غُربت سے اگر نکلا تو
میرا تمغہ مِرے احباب کو لے ڈوبے گا
شعر لکھتے ہوئے اکثر یہ خیال آتا ہے
کوئی مصرعہ دل بے تاب کو لے ڈوبے گا
اس لئے دل میں لیے پھرتا ہوں سارا جنگل
اشک اک خطۂ شاداب کو لے ڈوبے گا
نفس کی بھوک تو مٹ جائے گی لیکن ہادی
مستقل طور پہ آداب کو لے ڈوبے گا
سیف الرحمان ہادی
No comments:
Post a Comment