تفصیل کا نہیں وہ، خلاصوں میں بانٹ دے
اس خواب کو تمام حواسوں میں بانٹ دے
پنگھٹ پہ کیا سماں ہے بتایا نہ جائے گا
گاگر میں جتنا صبر ہے پیاسوں میں بانٹ دے
سب کو سمجھ نہ اپنی چکاچوند کا حجاب
کچھ کترنیں دریدہ لباسوں میں بانٹ دے
اپنا نہیں ہُوا تو اسے دیکھنا بھی کیا
اس آئینے کو عیب شناسوں میں بانٹ دے
تجھ میں بچی پڑی ہے جو دو گھونٹ زندگی
اوندھے پڑے تمام گلاسوں میں بانٹ دے
وہ ہاتھ آ گیا تو سمجھ میں بھی آئے گا
تب تک معاملات قیاسوں میں بانٹ دے
اس سے کہو کہ دیکھ لے آنکھیں عوام کی
خیراتِ عام بھی نہ خواصوں بھی بانٹ دے
خود پر ہنسے دنوں کے ذخیرے سے کچھ نکال
یہ ڈھیر شہر بھر کے اداسوں میں بانٹ دے
میرے خواص تیرے اثر کو بڑھائیں گے
مجھ تلخ کو بھی اپنی مٹھاسوں میں بانٹ دے
حمیدہ شاہین
No comments:
Post a Comment