بیج
اے میرے ہم نفس
ہے دمِ آخریں
شام ڈھلنے کو ہے
دم نکلنے کو ہے
دل میں ہے اک چبھن
رِستی آنکھوں میں ماضی کی ہے داستاں
بیتے لمحے جو صدیوں کی مانند تھے
یاد آتا ہے صحرا کا تنہا سفر
بنامِ دِیں خوں بہانے والے
اور ان کی ہمت بڑھانے والے
سبھی میرا یہ اعلان سن لیں
کہ میں نے آنسو نہیں بہانے
ہے آنسوؤں کا حساب لینا
مجھے نہ کوئی امن سکھائے
نہ کوئی انجام سے ڈرائے
کہ میں تو اب انتقام لوں گا
میں اس لہو کا خِراج لوں گا
الطاف بخاری
No comments:
Post a Comment