Saturday 18 February 2023

زندگی پائی ہے اک چشم ستمگر کی طرح

 زندگی پائی ہے اک چشم ستمگر کی طرح

ہم پریشاں ہیں غریبوں کے مقدر کی طرح

اپنا تن کرب و بلا بن کے جلا ہے برسوں

ہم بھی پیاسے ہیں بہت آل پیمبرؐ کی طرح

اب کوئی رام نہیں غم کا دھنش جو توڑے

زندگی روتی ہے سیتا کے سوئمبر کی طرح

ہم نے چاہا تھا کہ ہم اپنی طرح سے جی لیں

ہم پہ الزام برسنے لگے پتھر کی طرح

روز جی اٹھتے ہیں سورج کی کرن کے ہمراہ

اور مر جاتے ہیں ہر شام سمندر کی طرح

جاتے رستوں میں کہاں اس کو گنوا آئے حسن

ایک نقشہ سا نگاہوں میں جو تھا گھر کی طرح


حسن کمال 

No comments:

Post a Comment