زندگی پائی ہے اک چشم ستمگر کی طرح
ہم پریشاں ہیں غریبوں کے مقدر کی طرح
اپنا تن کرب و بلا بن کے جلا ہے برسوں
ہم بھی پیاسے ہیں بہت آل پیمبرؐ کی طرح
اب کوئی رام نہیں غم کا دھنش جو توڑے
زندگی روتی ہے سیتا کے سوئمبر کی طرح
ہم نے چاہا تھا کہ ہم اپنی طرح سے جی لیں
ہم پہ الزام برسنے لگے پتھر کی طرح
روز جی اٹھتے ہیں سورج کی کرن کے ہمراہ
اور مر جاتے ہیں ہر شام سمندر کی طرح
جاتے رستوں میں کہاں اس کو گنوا آئے حسن
ایک نقشہ سا نگاہوں میں جو تھا گھر کی طرح
حسن کمال
No comments:
Post a Comment