دسمبر اب کے آؤ تو
تم اس شہرِ تمنا کی خبر لانا
کہ جس میں جگنوؤں کی کہکشائیں جھلملاتی ہیں
جہاں تتلی کے رنگوں سے فضائیں مسکراتی ہیں
وہاں چاروں طرف خوشبو وفا کی ہے
اور اس کو جو بھی پوروں سے
نظر سے چُھو گیا
پل بھر مہک اُٹھا
دسمبر اب کے آؤ تو
تم اس شہرِ تمنا کی خبر لانا
جہاں پر ریت کئے ذرے ستارے ہیں
گل و بلبل، مہ و انجم وفا کے استعارے ہیں
جہاں دل وہ سمندر ہے، کئی جس کے کنارے ہیں
جہاں قسمت کی دیوی مُٹھیوں میں جگمگاتی ہے
جہاں دھڑکن کی لے پر بے خودی نغمہ سناتی ہے
دسمبر ہم سےمت پوچھ ہمارے شہر کی بابت
یہاں آنکھوں میں گزرے کارواں کی گرد ٹہری ہے
محبت برف جیسی ہے یہاں
اور دھوپ کھیتوں میں اُگتی ہے
یہاں جب صبح آتی ہے تو شب کے
سارے سپنے راکھ کے اک ڈھیر کی صورت میں ڈھلتے ہیں
یہاں جذبوں کی ٹوٹی کرچیاں آنکھوں میں چبھتی ہیں
یہاں دل کے لہو میں اپنی پلکوں کو
ڈبو کر ہم سنہرے خواب بُنتے ہیں پھر
ان خوابوں میں جیتے ہیں
انہی خوابوں میں مرتے ہیں
دریدہ روح کو لفظوں سے سینا گو نہیں ممکن
مگر پھر بھی
دسمبر اب کے آؤ تو
تم اس شہرِ تمنا کی خبر لانا
فاخرہ بتول
No comments:
Post a Comment