وہ بے وفا ہی سہی اس کو بے وفا نہ کہو
ادب کی حد میں رہو حسن کو برا نہ کہو
شراب عشق کی عظمت سے جو کرے انکار
وہ پارسا بھی اگر ہو تو پارسا نہ کہو
پڑا ہے کام اسی خود پرست کافر سے
جسے یہ ضد ہے کسی اور کو خدا نہ کہو
مِرا خلوص محبت ہے قدر کے قابل
زباں پہ ذکر وفا ہے اسے گلا نہ کہو
یہ کیا کہا کہ دعا ہے اثر سے بے گانہ
تڑپ نہ دل کی ہو جس میں اسے دعا نہ کہو
یہ اور کچھ نہیں فطرت کی بد مذاقی ہے
بغیر بادہ گھٹا کو کبھی گھٹا نہ کہو
تڑپ تڑپ کے گزارو شبِ فراق اپنی
یہ ناز حسن ہے شاعر اسے جفا نہ کہو
شاعر فتحپوری
No comments:
Post a Comment