محبت ہے اذیت ہے ہجوم یاس و حسرت ہے
جوانی اور اتنی دکھ بھری کیسی قیامت ہے
وہ ماضی جو ہے اک مجموعہ اشکوں اور آہوں کا
نجانے مجھ کو اس ماضی سے کیوں اتنی محبت ہے
لب دریا مجھے لہروں سے یوں ہی چہل کرنے دو
کہ اب دل کو اسی اک شغل بے معنی میں راحت ہے
تِرا افسانہ اے افسانہ خواں! رنگیں سہی ممکن
مجھے رودادِ عشرت سن کے رو دینے کی عادت ہے
کوئی روئے تو میں بے وجہ خود بھی رونے لگتا ہوں
اب اختر چاہے تم کچھ بھی کہو یہ میری فطرت ہے
اختر انصاری
No comments:
Post a Comment