حسن تجھ کو اگر با صفا چاہیۓ
خوبصورت کوئی آئینہ چاہیۓ
مجھ سے کیوں پوچھتا ہے کہ کیا چاہیۓ
میں نے کی ہے وفا تو وفا چاہیۓ
دل کی جانب نظر کر رہی ہے طواف
کعبے دل کو میرے خدا چاہیے
آبلے پاؤں کے دے رہے ہیں جواب
منزلوں کا ہمیں اب پتا چاہیۓ
سانس رک رک کے چلنے لگی ہے مری
ان کے کونچے کی آب و ہوا چاہیۓ
چین راحت سکوں نیند سب دے دیا
عشق تجھ کو بتا اور کیا چاہیۓ
زِندگی تجھ کو ہنس ہنس کے کیسے جیوں
جینے کے واسطے حوصلا چاہیۓ
کس لیے دیکھتی رہتی ہو تم ہمیں
کشتیوں کو بھنور کا پتا چاہیۓ
ایسی بستی میں ہم سب بسے ہیں جہاں
اپنی مرضی کا سب کو خدا چاہیۓ
مہرباں عشق ہوتا نہیں ہر گھڑی
دل لگانے میں بھی تجربہ چاہیے
لوگ گھٹ گهٹ کے جینے کو مجبور ہیں
اچھے دن کا مجھے ترجمہ چاہیۓ
ٹوٹ جائے حکومت کا سارا غرور
اس صدی کو بھی اک کربلا چاہیۓ
پھر تیری یاد آنے لگی ہے مجھے
پھر کوئی زخم دل کو نیا چاہیۓ
زِندگی کی ضرورت محبت ہے دل
ایک اندھے کو جیسے عصا چاہیۓ
دل سکندر پوری
No comments:
Post a Comment