Sunday, 19 February 2023

حسن تجھ کو اگر با صفا چاہیۓ

 حسن تجھ کو اگر با صفا چاہیۓ

خوبصورت کوئی آئینہ چاہیۓ

مجھ سے کیوں پوچھتا ہے کہ کیا چاہیۓ

میں نے کی ہے وفا تو وفا چاہیۓ

دل کی جانب نظر کر رہی ہے طواف 

کعبے دل کو میرے خدا چاہیے

آبلے پاؤں کے دے رہے ہیں جواب

منزلوں کا ہمیں اب پتا چاہیۓ

سانس رک رک کے چلنے لگی ہے مری 

ان کے کونچے کی آب و ہوا چاہیۓ

چین راحت سکوں نیند سب دے دیا

عشق تجھ کو بتا اور کیا چاہیۓ

زِندگی تجھ کو ہنس ہنس کے کیسے جیوں

جینے کے واسطے حوصلا چاہیۓ

کس لیے دیکھتی رہتی ہو تم ہمیں 

کشتیوں کو بھنور کا پتا چاہیۓ

ایسی بستی میں ہم سب بسے ہیں جہاں

اپنی مرضی کا سب کو خدا چاہیۓ

مہرباں عشق ہوتا نہیں ہر گھڑی

دل لگانے میں بھی تجربہ چاہیے

لوگ گھٹ گهٹ کے جینے کو مجبور ہیں 

اچھے دن کا مجھے ترجمہ چاہیۓ

ٹوٹ جائے حکومت کا سارا غرور

اس صدی کو بھی اک کربلا چاہیۓ

پھر تیری یاد آنے لگی ہے مجھے

پھر کوئی زخم دل کو نیا چاہیۓ

زِندگی کی ضرورت محبت ہے دل 

ایک اندھے کو جیسے عصا چاہیۓ


دل سکندر پوری

No comments:

Post a Comment