ہمیں لگا تھا کہ وہ سہارا نہیں بنے گا
بنے گا لیکن، کبھی ہمارا نہیں بنے گا
کہو احتیاط کرنے میں عافیت ہے
بھرم جو ٹوٹا تو پھر دوبارا نہیں بنے گا
کہا تھا کوزہ گروں سے مٹی مزید لے لو
خمیر کم ہے سو جسم سارا نہیں بنے گا
تمہارے گالوں کو چُھو کے روشن تو ہو گیا ہے
یہ اشک لیکن کبھی ستارا نہیں بنے گا
بدن عمارت پہ حکمرانی ہے عین ممکن
مگر یہ دل اب کبھی تمہارا نہیں بنے گا
اُسے یہ ڈر ہے کہ حَبس ساحل کو مار دے گی
بھنور بنے گا سو وہ کنارا نہیں بنے گا
ہے زرد موسم دسمبروں کا امین فیصل
کبھی محبت کا استعارا نہیں بنے گا
فیصل ندیم
No comments:
Post a Comment