یہاں جو مسجد ہے کون سی ہے خدا کی مسجد
بس آج کل تو علامتی ہے خدا کی مسجد
یہ سجدہ گاہیں نہیں ہیں ڈیرے ہیں مسلکوں کے
ہر اک طرف سے گھری ہوئی ہے خدا کی مسجد
یہ کون ہیں جو فروغ دیتے ہیں نفرتوں کو
خدا کی مسجد سے لڑ رہی ہے خدا کی مسجد
مجھے یقیں ہے کرے گی شکوے بہت خدا سے
قسم خدا کی بھری ہوئی ہے خدا کی مسجد
کبھی تو شورِ جہاں کے پردے ہٹا کے سن لے
خدا کے بندے! پکارتی ہے خدا کی مسجد
یہ کیوں تعجب سے دیکھتے ہیں سب آسماں کو
کہ جب بذاتِ خود آدمی ہے خدا کی مسجد
مجھے بتاؤ کہ کس جگہ پر خدا نہیں ہے؟
بس اک عمارت کا نام ہی ہے خدا کی مسجد
یہ گھر گرا کر وہ خود گنہ گار ہو گیا ہے
کہ دل بھی تو ایک طرح کی ہے خدا کی مسجد
حارث جمیل
No comments:
Post a Comment