کبھی اندر کبھی باہر سے بدل ڈالتا ہے
میرا ہونا مِرے ہونے میں خلل ڈالتا ہے
میں تو آئینہ ہوں آئینہ مِرے یار تِرا
کیوں مجھے دیکھ کے تو ماتھے پہ بل ڈالتا ہے
آریاں چلنے لگیں اب تو ہرے پیڑ پہ بھی
کون اب سوکھے ہوئے پودوں کو جل ڈالتا ہے
کی تو ہے اس نے عطا صبر کی توفیق ہمیں
دیکھیں کب جھولی میں وہ صبر کا پھل ڈالتا ہے
کون لمحات کو تسبیح کے دانوں کی طرح
پھیرتا جاتا ہے اور وقت بدل ڈالتا ہے
کبھی فن کو مِرے فاقہ نہیں کرنا پڑتا
مِرے کاسے میں کوئی تازہ غزل ڈالتا ہے
راجیش ریڈی
No comments:
Post a Comment