جاگیردانہ معاشرہ اور غریب
ہلاکو خانوں کی بستیوں میں غریب پڑھ کے پڑھا کے دیکھے
یہ لعلِ مُفلس ہر ایک جذبے کی کرچیاں بھی اٹھا کے دیکھے
امیرِ شہرِ ستم غریبوں کا اس طرح دست و پا بنا ہے
کہ خاندانی غلامی والی کوئی تو رسمیں مٹا کے دیکھے
یہ چاہتے ہیں سفید ریشم اِنہیں کا ملبوس ہو جہاں میں
غریب لیکن نہ عید کے دن بھی کوئی خوشبو لگا کے دیکھے
وہ جانتا ہے کہ اَن پڑھوں کی آواز قسمت سے دب چکی ہے
کیوں نہ پڑھے لکھوں کو اپنی جدید رعیّت بنا کے دیکھے
میرے وطن کے غریب لوگو! میں تم سے اس بار ہوں مخاطب
اس سے پہلے کہ سانحے کوئی روز قتلِ انا کے دیکھے
اس سے پہلے کہ گھر تمہارا بھی نذرِ آتش ہوا پڑا ہو
اس سے پہلے کہ تیری بیٹی کو کوئی لونڈی بُلا کے دیکھے
اس سے پہلے کہ تیرے بیٹے لہو کی بوندوں میں ڈھل چکے ہوں
اس سے پہلے کے اپنے کُتوں کے ساتھ تجھ کو کِھلا کے دیکھے
یہ مشورہ ہے، یہ التجا ہے، وسیب چھوڑو، زمیں وسیع ہے
یا پھر کتابِ خُدا سے ہجرت کا لفظ کوئی مِٹا کے دیکھے
رکھو یہ بازو پہ سر بُریدہ، ذرا یہ سوچو کہ شہر بھر میں
تمہیں جو عزت خُدا نے دی ہے، وہ تم سے کوئی چُرا کے دیکھے
ہم بھی اہلِ جنوں ہیں ساحل! کہ ضِد اسی پر اڑے ہوئے ہیں
اُسی کی عزت کریں گے لازم، جو ہر نظر مُسکرا کے دیکھے
عصمت اللہ ساحل
No comments:
Post a Comment