امید پر ہماری یہ دنیا کھری نہیں
پھر بھی تو اس کو پانے کی خواہش مری نہیں
بے وجہ گل رخوں سے مِری بے رخی کہاں
میرے جنون شوق کے قابل پری نہیں
تسکیں ملے بھی دیدۂ حیراں کو کس طرح
شیشہ گری نہیں، کہیں جلوہ گری نہیں
بد رنگ سی بہار ہے فصلِ بہار میں
بشاش دل نہیں ہے، طبیعت ہری نہیں
لگتا ہے آج شہر کے حالات ٹھیک ہیں
مسجد وگرنہ کل کی طرح کیوں بھری نہیں
حالانکہ میرے جرم پہ پردے پڑے رہے
دل کی ملامتوں سے مگر میں بری نہیں
دھرتی پہ دکھ رہے ہیں گناہوں کے اب اثر
اعظم کہیں تو خشکی، کہیں پر تری نہیں
ڈاکٹر اعظم خان
No comments:
Post a Comment