یہ شام پھر آج یوں ہے جیسے
ہزاروں سورج
مِرا تِرا درد لے کر
سب ایک ساتھ ڈوبے ہوں سارے سورج
جو میرے آنگن میں ہر سحر ترا نام لیتے
پھر آج کی شام
مجھ سے تیری طرح جدا ہو کے جا رہے ہیں
یہ شام ان راستوں پہ لے آئی ہے جہاں پھر
زمیں پہ افلاک نودمیدہ
اور ان کی پرکار گردشیں ہیں
مِرے تِرے ماضیوں کے وہ دن
انوکھے، ناآشنا زمانے
میں ان زمانوں سے آنے والی
اچھوتی سی روشنی کی لہروں میں دیکھتا ہوں
یہاں تِرا نام بھی لکھا ہے
یہاں تِری یاد کا یہ درد آج پھر نیا ہے
شہاب جعفری
No comments:
Post a Comment