یہ کس طلسم کے مارے چراغ جل رہے تھے
درخت سارے سلامت تھے باغ جل رہے تھے
مِری رسائی بھی اک سببِ نارسائی بنی
کہ تیری سمت چلا تو سراغ جل رہے تھے
کہیں خوشی تھی کہ آخر کو جان چھوٹ گئی
کہیں پہ چھایا تھا ماتم کہ زاغ جل رہے تھے
بچھڑتے وقت کی روداد کیا کہوں صادق
بدن کھڑے تھے کنارے دماغ جل رہے تھے
اہتمام صادق
No comments:
Post a Comment