Sunday, 26 February 2023

خوف پھاٹک کے دونوں طرف پہ تحریر ہے

 خوف پھاٹک کے دونوں طرف

درمیاں

پٹریوں پہ

ہر اک کیل کانٹے پہ تحریر ہے 

حاملہ ریل گاڑی کے بچے دھواں 

پھونکنے آ رہے ہیں مضافات سے 

شہر جانے کے شوقین 

کب جانتے ہیں 

کہ شاپنگ بہانہ ہے 

اک موت کا 

گر یونہی ہم ہر اک حادثے پہ 

کوئی نہ کوئی نظم کہتے رہے 

تو یہ پیازوں کے چھلکے طلوع قیامت تلک 

آنکھ سے اشک جنتے رہیں گے 

(یہ ٹونٹی کوئی بند کر دے

فوارے سے پانی نہیں خوں نکلنے لگا ہے)

مگر کوئی دن 

ہاں اگر کوئی دن 

صبح معمول سے ہٹ کے جاگی 

تو میں

زندگی! سُن مجھے 

نظم کو پورا کرنے سے پہلے سبھی

پٹریوں پہ جما خون دھونا ہے

اچھے سے رونا ہے 

کیا ریل گاڑی کو آنے میں کچھ دیر ہے

ایک بوسے کی مہلت میں کیا کچھ کہوں 


توقیر رضا

No comments:

Post a Comment