خوف پھاٹک کے دونوں طرف
درمیاں
پٹریوں پہ
ہر اک کیل کانٹے پہ تحریر ہے
حاملہ ریل گاڑی کے بچے دھواں
پھونکنے آ رہے ہیں مضافات سے
شہر جانے کے شوقین
کب جانتے ہیں
کہ شاپنگ بہانہ ہے
اک موت کا
گر یونہی ہم ہر اک حادثے پہ
کوئی نہ کوئی نظم کہتے رہے
تو یہ پیازوں کے چھلکے طلوع قیامت تلک
آنکھ سے اشک جنتے رہیں گے
(یہ ٹونٹی کوئی بند کر دے
فوارے سے پانی نہیں خوں نکلنے لگا ہے)
مگر کوئی دن
ہاں اگر کوئی دن
صبح معمول سے ہٹ کے جاگی
تو میں
زندگی! سُن مجھے
نظم کو پورا کرنے سے پہلے سبھی
پٹریوں پہ جما خون دھونا ہے
اچھے سے رونا ہے
کیا ریل گاڑی کو آنے میں کچھ دیر ہے
ایک بوسے کی مہلت میں کیا کچھ کہوں
توقیر رضا
No comments:
Post a Comment