Sunday, 19 February 2023

روح میں لے کے زمانوں کی تھکن آئے تھے ہم

 روح میں لے کے زمانوں کی تھکن آئے تھے ہم 

رات یوں تھا کہ سرِ شہرِ بدن آئے تھے ہم 

خوش لباسی تھی جہاں شرط اسی محفل میں 

لوگ کہتے ہیں، تِرا ہجر پہن آئے تھے ہم 

یاد تو ہو گا کِھلی دُھوپ کے مانند اک روز 

روزنِ جاں سے تِری رُوح میں چھن آئے تھے ہم 

تیری آنکھوں میں کبھی آئے تھے حیرت کی طرح

تیرے ماتھے پہ کبھی مثلِ شکن آئے تھے ہم 

تم کو دیکھا تو ملی قوتِ گویائی ہمیں 

ورنہ خاموش تھی جب شہرِ سخن آئے تھے ہم 

یہ تو اچھا ہوا، جی کھول کے رویا وہ ہمیں 

کیسا بچوں کی طرح دھول میں سن آئے تھے ہم 

اس نے کچھ ایسا بنایا تھا کہ بگڑے ہوئے تھے 

اس نے کچھ ایسا بگاڑا تھا کہ بن آئے تھے ہم 


ابھیشیک شکلا 

No comments:

Post a Comment