ہم چلے تھے کہ ان کی ڈگر جائیں گے
کس نے جانا تھا جاں سے گزر جائیں گے
پھیلی خوشبو ہوا میں یہی سوچتی
پھیلنے سے مقدر سنور جائیں گے
کس کو معلوم تھا نیند کے شوق میں
خواب آنکھوں میں آ کر بکھر جائیں گے
ہم کہ زندہ رہے ہیں تِرے بعد بھی
جانتے ہیں کہا تھا کہ مر جائیں گے
جاؤ کہہ دو انہیں دل نہیں دیں گے ہم
ہو گئی رات ہم اپنے گھر جائیں گے
کوئی نغمہ نہیں ہے نہ ہی آرزو
آپ دیکھیں تو تھوڑے سے ڈر جائیں گے
وعدۂ شب کریں گے خبر ہے ہمیں
اور پہلو میں آ کر مُکر جائیں گے
تیرا معنی جو اترے گا دل پر مِرے
حرف کاغذ پہ آ کر نکھر جائیں گے
رکھ لیا آنکھ میں دشت نیلم نے گر
اتنی وحشت میں صحرا کدھر جائیں گے
نیلم بھٹی
No comments:
Post a Comment