Monday 20 February 2023

دوست بہت رہے مگر یار نہیں بنا کوئی

 دوست بہت رہے مگر یار نہیں بنا کوئی

یعنی، میں چل پڑا تو دیوار نہیں بنا کوئی

اک تو یہ دکھ کہ کوئی حقدار ہی بن گیا تِرا

اس پہ ستم یہ ہے کہ حقدار نہیں بنا کوئی

پھول بکا رہے ہیں ترشول بکانے والے بھی

جب سے وہ شہر آیا، ہتھیار نہیں بنا کوئی

عشق شناس لوگ تھے سارے اداس لوگ تھے

سو مِرے شہر سے اداکار نہیں بنا کوئی

شعبدہ‌ باز اب کے مایوس پلٹ گیا ہے راز

یعنی کہ بے وقوف اس بار نہیں بنا کوئی


اسماعیل راز

No comments:

Post a Comment