پیکرِ خاکی یہ مانا موت سے دو چار ہے
زندگی! تیرا مگر رستہ بہت دُشوار ہے
جو ہے مُفلس وہ زمانے میں ذلیل و خوار ہے
مال و زر ہو پاس جس کے صاحبِ کردار ہے
رِس رہا ہے خوں بدن سے، بھیگتا ہے پیرہن
زخم ہے میرے جگر کا یا کہ لالہ زار ہے
خون دل سے میں نے سینچا ہے تجھے اے زندگی
میرے ہی دم سے تو یہ چہرہ تِرا گلزار ہے
بھاپ بن کر اُڑ گیا میری رگِ جاں سے لہو
بارشیں اب خون کی ہوں گی یہی آثار ہے
جانے کس کی جستجو یہ کر رہے ہیں روز و شب
چاند سورج کے لیے اک منزلِ دُشوار ہے
بک رہے ہیں دین و ایماں بک رہے ہیں جسم و جاں
یہ جہانِ آرزو اک مصر کا بازار ہے
آپ کے دل کا معمہ ذہن نے حل کر لیا
آپ کے انکار ہی میں آپ کا اقرار ہے
مُنفرد میری زباں ہے خوب تر میرا بیاں
فکر کا توقیر! اک دریا پسِ دیوار ہے
توقیر زیدی
No comments:
Post a Comment