کہیں سکوت سے مشتق کہیں صدا ہوں میں
کہیں ہوں پانی کے اندر کہیں ہَوا ہوں میں
میں ایسی باتوں کا بالکل بُرا مناتا نہیں
تُو مجھ کو صاف بتا دے کہ بیوفا ہوں میں
چراغ جیسے بڑی وسعتوں کا حامل ہے
میں اپنے آپ میں رہ کر بھی انتہا ہوں میں
شدید کرب میں کھینچی گئی مِری تصویر
میں ہنستا دیکھا گیا ہوں، مگر خفا ہوں میں
وہ ایک عمر پُجارن رہی ہے، پھر جا کر
خدا بنا نہیں پر دیوتا ہُوا ہوں میں
جہانِ تازہ مِری دسترس میں ہے ہر دم
یہ جسم میرا پرانا ہے پر نیا ہوں میں
خدایا! خود ہی بتا دے، نباہ کیسے ہو
وہ سخت دل ہے بہت اور سر پِھرا ہوں میں
یہ درد اٹھتا ہے کیونکر ہماری رگ رگ سے
نہ جانے کیسی اذیت میں مبتلا ہوں میں
سو میرے بارے میں تم کو خبر نہیں ساجد
تمہارے بارے میں سب کچھ ہی جانتا ہوں میں
ساجد رضا
No comments:
Post a Comment