Tuesday, 21 February 2023

ایک نشانی آگ میں پھینکی ایک نشانی دریا میں

 ایک نشانی آگ میں پھینکی ایک نشانی دریا میں

اور پھر اتنے اشک بہائے جتنا پانی دریا میں

ایک محبت کچے گھڑے پر تیرتی تیرتی ڈوب گئی

موجیں لکھتی رہتی ہیں وہ روز کہانی دریا میں

تھک جاؤ تو رستہ بدلو اپنی اپنی ناؤ کا

کیا دریا سے لڑنا اور کیا آگ لگانی دریا میں

شاید کوئی اپنی غربت کے ہاتھوں مجبور ہوئی

ایک چُنریا بہتے دیکھی کل شب، دھانی، دریا میں

طاہر خیر ہو سب کی لیکن کچھ انہونی لگتی ہے

جنگل میں کتنے سناٹے، اور ویرانی دریا میں


 فاروق طاہر

No comments:

Post a Comment