ایک نشانی آگ میں پھینکی ایک نشانی دریا میں
اور پھر اتنے اشک بہائے جتنا پانی دریا میں
ایک محبت کچے گھڑے پر تیرتی تیرتی ڈوب گئی
موجیں لکھتی رہتی ہیں وہ روز کہانی دریا میں
تھک جاؤ تو رستہ بدلو اپنی اپنی ناؤ کا
کیا دریا سے لڑنا اور کیا آگ لگانی دریا میں
شاید کوئی اپنی غربت کے ہاتھوں مجبور ہوئی
ایک چُنریا بہتے دیکھی کل شب، دھانی، دریا میں
طاہر خیر ہو سب کی لیکن کچھ انہونی لگتی ہے
جنگل میں کتنے سناٹے، اور ویرانی دریا میں
فاروق طاہر
No comments:
Post a Comment