سانحۂ پشاور
شہدائے مکتب کے نام
کوئی جب پھول گلشن میں بنا پہچان لیتا ہے
نہ جانے کیوں بشر اس پر نگاہیں تان لیتا ہے
وہ جس نے شاخِ نازک پہ مزے لُوٹے صباؤں کے
نہیں ملتی اسے شبنم، نہ وہ گُلدان لیتا ہے
جو اس گلشن کا حصہ ہے، وہی غیروں کے کہنے پر
اپنے ہاتھ ہی سے کر چمن ویران لیتا ہے
رفاقت جب مسافت میں بدلتی ہے، تو ہر اپنا
کر مغموم آنکھوں میں کھڑے طوفان لیتا ہے
ابھی جو واقعہ دیکھا فلک پر قُدسیوں نے بھی
یہ ایسا سانحہ ہے، جو چُرا مُسکان لیتا ہے
اگر لختِ جگر گھر سے روانہ ہو تو آنے تک
گھر ماؤں کو چوکھٹ کی سمجھ دربان لیتا ہے
بنا رکھے تھے کھانے سب نے لیکن کیا خبر کس کو
خُدا چاہے جنہیں اپنا بنا مہمان لیتا ہے
اگر تفریق کرنے کی کرے کوشش کوئی دشمن
تو ملت کی اخوت بھی یقیناً جان لیتا ہے
میں پُر امید ہوں ساحل کہ اپنی سرخ رنگت سے
جہاں میں خون شہیدوں کا بنا پہچان لیتا ہے
عصمت اللہ ساحل
No comments:
Post a Comment