Sunday 26 February 2023

نگار خانۂ ہستی میں ہے قرار مجھے

 نگار خانۂ ہستی میں ہے قرار مجھے

تُو آسماں کی بلندی سے اب پکار مجھے

نہیں نہیں میں مکمل ابھی ہوا ہی نہیں 

اے کوزہ گر نہ ابھی چاک سے اتار مجھے 

خزاں بہار کی آمد کا استعارہ ہے 

خزاں کی پیشرو لگتی ہے یہ بہار مجھے

 تمہاری آنکھ میں ٹھہرا ملال یاد آیا 

کیا ہے آج کسی نے جو اشکبار مجھے 

میں پورے طور سے تجھ پہ ابھی کُھلا ہی نہیں 

تُو اپنی آنکھ سے دل میں ذرا اتار مجھے 

میں آسمان سے نیچے اتار لاؤں گا

کبھی چڑھا جو تِرے عشق کا خمار مجھے

بچھڑتے وقت ذرا آنکھ میں بھی نم کر لوں 

دو چار اشک مِری جان دے ادھار مجھے

کسی کے حرفِ ملامت سے پیشتر شاہد 

مِرا ضمیر ہی کرتا ہے شرمسار مجھے 


افتخار شاہد

No comments:

Post a Comment